
پنجاب پولیس نے مدرسے کے طالب سے مبینہ بدفعلی کی وائرل ویڈیو کا مقدمہ درج ہونے کے بعد جامعہ منظور الاسلامیہ کے برطرف عہدیدار مفتی عزیز الرحمٰن کو گرفتار کرلیا۔
سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کے ڈی ایس پی حسنین حیدر کی سربراہی میں ٹیم نے میانوالی میں چھاپا مار کر مفتی عزیز الرحمٰن کو گرفتار کیا۔
پولیس ملزم کو لاہور منتقل کرنے کے بعد ایک سے 2 روز میں عدالت میں پیش کردے گی۔
میانوالی سے مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے مفتی عزیز الرحمٰن کے ایک بیٹے عتیق الرحمٰن کو کاہنہ کے ایک مدرسے جبکہ دوسرے بیٹے کو لکی مروت سے گرفتار کیا۔
پولیس کی جانب سے دیگر ملزمان لطیف الرحمٰن اور عبداللہ کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جارے رہے ہیں۔
دوسری جانب انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ‘ہم مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں’۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس اس معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھے گی، ملزم سے تفتیش کرے گی، سائنسی اور پروفیشنل تحقیقات کر کے مقدمہ چلایا جائے گا اور ملزم کو عدالت سے سزا دلوائی جائے گی۔
We have been able to arrest this criminal. We will take it as a test case, interrogate him, conduct scientific professional investigation, prosecute and get him convicted by the court. We want our kids protected from these child molesters and keep our society safe for our future. pic.twitter.com/W8frA3irKC
— Inam Ghani QPM & Bar, PSP (@InamGhani) June 20, 2021
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے ان استحصال کرنے والوں سے اور مستقبل کے لیے ہمارا معاشرہ محفوظ رہے’۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں مفتی عزیز الرحمٰن کو ایک لڑکے سے مبینہ بدفعلی کرتے دیکھا گیا تھا۔
بعدازاں طالبعلم کی شکایت پر مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 (غیر فطری جرائم) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔