بچوں کا اسمارٹ فونز اور دیگر اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے، جو انہیں ڈپریشن اور انزائٹی جیسے دماغی امراض کا شکار بنا سکتا ہے۔ ایک نئی تحقیق میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ اسکرینوں کے سامنے گزرنے والا وقت بچوں کی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، خاص طور پر 9 اور 10 سال کی عمر کے بچوں میں، جہاں ڈپریشن، انزائٹی اور اشتعال جیسے مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جرنل بی ایم سی پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اسکرین کے سامنے گزارے گئے وقت کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی، ڈپریشن کی علامات کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ خاص طور پر ویڈیو چیٹنگ، ویڈیوز دیکھنے، اور ویڈیو گیمز کھیلنے کی صورت میں یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس تحقیق میں ساڑھے 9 ہزار سے زائد بچوں کی دو سال تک مانیٹرنگ کی گئی۔
ماہرین نے یہ بھی کہا کہ اسمارٹ فونز کی وجہ سے بچے جسمانی سرگرمیوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ ان کی نیند کا دورانیہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ والدین کا اس حوالے سے کردار بہت اہم ہے، اور انہیں اسکرینوں کے منفی اثرات کی روک تھام کے لیے سرگرم رہنا چاہیے۔
اس سے پہلے جنوری 2023 میں سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بچپن میں اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے اور 9 سال کی عمر میں ناقص دماغی افعال کے درمیان تعلق موجود ہے۔ اس تحقیق نے واضح کیا کہ اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے منصوبہ بندی، توجہ مرکوز کرنے، ہدایات کو یاد رکھنے، اور ایک کام سے دوسرے کام میں آسانی سے سوئچ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
یہ دماغی افعال جذباتی کنٹرول، نئے سیکھنے، تعلیمی کامیابیوں اور مجموعی دماغی صحت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ افعال سماجی، تعلیمی اور عملی زندگی میں کامیابی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگرچہ ذہنی افعال کی نشوونما قدرتی طور پر بچپن سے بلوغت تک ہوتی ہے، مگر روزمرہ کی زندگی کے تجربات ان پر اثر ڈالتے ہیں۔
بچپن میں اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے بچوں کو حقیقی دنیا سے سیکھنے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں، جو ان کی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔