ایک گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے اچانک مجھے اندر سے ایک دس سالہ بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ میں مجبوراً اندر چلا گیا۔ اندر داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مار رہی تھی اور خود بھی روتی جا رہی تھی۔ میں نے پوچھا، "بہن، کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو؟”
اس نے جواب دیا، "بھائی، آپ تو جانتے ہیں کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں، اور ہم بہت غریب ہیں۔ میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت روزانہ دیر سے جاتا ہے اور راستے میں کھیل کود میں لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے روزانہ اپنی سکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔”
میں نے ان دونوں کو تھوڑی دیر سمجھایا اور وہاں سے چلا گیا۔
کچھ دن بعد، سبزی منڈی میں گئے ہوئے میری نظر اسی بچے پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ وہ منڈی میں پھر رہا ہے اور دکانداروں کی گرائی ہوئی سبزی اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میری تشویش بڑھ گئی۔ میں نے چپکے سے اس کا پیچھا کیا۔
جب اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی، تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر اونچی آواز میں سبزی بیچنے لگا۔ اس کی وردی گندی تھی، منہ پر مٹی، اور آنکھوں میں نمی۔ اچانک ایک آدمی آیا اور اس کی دکان کو دھکا دے دیا۔ بچہ آنکھوں میں آنسو لیے دوبارہ سبزی اکٹھا کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد، اس نے اپنی سبزی بیچ کر ایک کپڑے کی دکان میں جا کر پیسے دئیے اور اپنا سکول بیگ اٹھایا، پھر سکول کی طرف چلا گیا۔ میں نے اس کے پیچھے چلنے کا فیصلہ کیا۔
جب وہ سکول پہنچا تو ایک گھنٹہ لیٹ ہو چکا تھا۔ استاد نے اسے سزا دی، اور میں نے جلدی سے استاد کو منع کیا کہ یہ یتیم بچہ ہے، اسے نہ مارو۔ استاد نے کہا، "یہ روزانہ ایک گھنٹہ دیر سے آتا ہے، میں نے کئی بار اس کے گھر بھی پیغام بھیجا ہے۔”
بچہ سزا کے بعد کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے استاد کا موبائل نمبر لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جا کر میں نے محسوس کیا کہ میں سبزی خریدنے جانا بھول گیا ہوں۔
وہ بچہ جب گھر آیا تو ایک بار پھر اپنی ماں سے مار کھانے گیا ہوگا۔ رات بھر میں یہ سوچتا رہا کہ کیا اس بچے کی زندگی یوں ہی گزرے گی؟
اگلی صبح، میں نے فوراً بچے کے استاد کو کال کی اور کہا کہ منڈی میں ہر حالت میں آنا ہے۔ اس نے مثبت جواب دیا۔ جب سورج نکلا تو بچہ سکول جانے کے بجائے منڈی جا رہا تھا۔ میں نے اس کی ماں کو بلایا اور کہا کہ اسے سمجھنے آؤ کہ اس کا بیٹا سکول کیوں دیر سے جاتا ہے۔ وہ فوراً میرے ساتھ چل پڑی۔
ہم منڈی میں بچے کی نگرانی کرنے لگے۔ آج بھی اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اس نے سبزی بیچی اور کپڑے کی دکان کی طرف بڑھا، تو اچانک مجھے اس کی ماں پر نظر پڑی۔ وہ درد بھرے سسکیوں کے ساتھ زار و قطار رو رہی تھی۔ استاد کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
دونوں کو روتا دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے اس معصوم بچے پر کتنا ظلم کیا۔ احمد نے اپنی محنت سے ایک لباس خریدا، اور جب میں نے پوچھا کہ یہ کس کے لیے ہے، تو اس نے کہا، "میری ماں کے لیے۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں، میں روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے اسے سلائی کے لیے دوں گا۔”
یہ سن کر میں اور استاد دونوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ہم سوچنے لگے کہ یہ بچہ کب تک یہ محنت کرتا رہے گا، اور یہ سوال ہمارے دلوں میں گونجتا رہا: "آخری کب تک غریبوں کے بچے ننھی دکانیں لگاتے رہیں گے؟